حضرت سیدنا منصور بن عمارؒ بتاتے ہیں کے اُن کا ایک دینی بھائی تھا جو اُن کا بہت معتقد تھا۔ وہ ہر دکھ سکھ میں اُن سے ملاقات کرتا۔ میں اُس کو تنہائی میں عبادت گزار، تہجّد گزار اور رونے والا سمجھتا تھا۔میں کچھ دنوں تک اُس سے نہ ملا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو بہت کمزور ہوگیا ہے۔ میں نے اس کے گھر کے بارے میں پوچھا اور اُس کے گھر جا کر دستک دی تو اس کی بیٹی آئی اور پوچھا کہ آپ نے کس سے ملنا ہے؟ میں نے جواب دیا فلاں سے۔ وہ اندر گئی اور واپس آکر کہنے لگی آپ اندر آجائیں ۔ میں نے داخل ہو کر دیکھا وہ گھر کے درمیان میں بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ اُس کا چہرہ سیاہ، آنکھیں نیلی اور ہونٹ موٹے ہو چکے تھے۔میں نے اسے ڈرتے ڈرتے کہا: اے میرے بھائی! لا الہ الا اللہ کی کثرت کرو۔ اُس نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولی اور میری طرف دیکھا پھر اُس پر غشی طاری ہو گئی۔ میں نے دوسری مرتبہ بھی یہی تلقین کی تو اس نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا لیکن دوبارہ اس پر غشی طاری ہوگئی۔
جب میں نے تیسری مرتبہ کلمہ پڑھنے کی تلقین اور کہا کہ اگر تم نے کلمہ نہ پڑھا تو میں تمہیں غسل،کفن نہیں دوں گا اور نہ ہی تمھارا جنازہ پڑھونگا۔یہ سن کر اُس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہنے لگا: اے میرے بھائی! اے منصور! اس کلمے اور میرے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے۔ میں نے کہا ۔ کہاں گئی وہ نمازیں، وہ روزے، تہجّد اور راتوں کا قیام؟ تو اُس نے مجھے حسرت سے بتایا: اے میرے بھائی! یہ سب میں اللہ کی رضا کے لیے نہیں کرتا تھا، بلکہ اس لیے کرتا تھا کہ لوگ مجھے نمازی، روزے دار اور تہجّد گزار کہیں۔ اور میں لوگوں کو دکھانے کے لیے ذکر الہٰی کرتا تھا۔ جب میں تنہائی میں ہوتا تو دروازہ بند کرلیتا، برہنہ ہو کر شراب پیتا اور نافرمانیوں سے اپنے رب کا مقابلہ کرتا تھا۔ ایک عرصے تک میں اسی طرح کرتا رہا۔ پھر ایسا بیمار ہوا کہ میرے بچنے کی امید نہ رہی ۔میں نے اپنی اسی بیٹی سے کہا جاؤ قرآن پاک کے کر آؤ۔ وہ لے کر آگئی۔میں قرآن کا ایک ایک حرف پڑھتا رہا یہاں تک کہ جب سورت یس تک پہنچا تو قرآن پاک کو بند کر کے بارگاہ الٰہی میں عرض کی: اے اللہ عزوجل! اس قرآن عظیم کے صدقے مجھے شفا عطا فرما۔میں آئندہ گناہ نہیں کروں گا۔ اللہ عزوجل نے میری دعا قبول فرمائی اور مجھ سے بیماری کو دور کردیا۔ جب میں شفا یاب ہوا تو دوبارہ لذات و خواہشات میں پڑ گیا۔شیطان نے مجھے میرا عہد بھلا دیا۔ وہ عہد جو میرا میرے رب سے ہوا تھا۔ میں عرصہ دراز تک گناہ کرتا رہا۔ پھر اچانک دوبارہ اسی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ جب میں نے موت کے سائے دیکھے تو گھر والوں سے کہا کہ مجھے میری عادت کہ مطابق وسط مکان میں نکال دیں۔ میں نے قرآن شریف منگوا کر پڑھی اور بلند آواز سے عرض کی: یا اللہ عزوجل! اس کی عظمت کا واسطہ جو اس مصحف شریف میں ہے، مجھے اس مرض سے نجات عطا فرما۔
اللہ عزوجل نے میری دعا قبول فرمائی اور دوبارہ اس بیماری سے مجھے شفا عطا فرمائی۔ لیکن میں دوبارہ پھر اُسی طرح نفسانی خواہشات اور گناہوں کے کاموں میں پڑ گیا۔ یہاں تک کہ اس مرض میں مبتلا یہاں پڑا ہوا ہوں۔ میں نے اپنے گھر والوں کو کہا کہ اس دفعہ پھر مجھے وسط مکان میں نکال دیں۔ جیسا کہ آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ جب میں نے قرآن پاک منگوا کر پڑھنا چاہا۔ تو میں ایک حرف بھی نہ پڑھ سکا۔ میں سمجھ گیا کہ اللہ عزوجل مجھ سے سخت ناراض ہے ۔ میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر عرض کی: يا اللہ عزوجل! اس قرآن پاک کی عظمت کا صدقہ، مجھے اس مرض سے نجات عطا فرما۔ تو میں نے غیب سے آواز سنی مگر اُسے دیکھ نہ سکا۔ یہ آواز اشعار کی صورت میں تھی۔ جن کا مفہوم یہ ہے:
جب تو بیماری میں مبتلا ہوتا تو اپنے گناہوں سے توبہ کر لیتا ہے اور جب تندرست ہوتا ہے تو پھر گناہ کرنے لگ جاتا ہے۔ جب تو تکلیف میں ہوتا ہے تو روتا رہتا ہے۔ اور جب طاقت حاصل کر لیتا ہے تو برے کام کرنے لگ جاتا ہے
کتنی ہی مصیبتوں اور آزمائشوں میں مبتلا ہوا مگر اللہ عزوجل نے تُجھے اُس سے نجات عطا فرمائی۔ اُس کے منع کرنے اور روکنے کے باوجود تو گناہوں میں غرق رہا۔اور بہت دیر تک اس سے غافل رہا۔کیا تُجھے موت کہ خوف نہیں تھا؟ تو عقل اور سمجھ رکھنے کے باوجود گناہوں پر ڈٹا رہا۔ تُجھ پر اللہ عزوجل کا کرم تھا، تو نے اسے بھلا دیا۔ اور کبھی بھی تم گناہ کرتے وقت نہیں کانپے
اور نہ ہی تمہیں خدا کا خوف آیا۔ کتنی مرتبہ تم نے اللہ کے ساتھ عہد کیا لیکن پھر توڑ دیا۔ بلکہ ہر اچھی اور بھلی بات کو تو بھول چکا ہے۔ اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے سے پہلے جان لو کہ تمھارا ٹھکانہ قبر ہے۔ جو ہر لمحہ تمہیں موت کے آنے کی خبر دے رہی ہے۔
حضرت سیدنا منصورؒ فرماتے ہیں کہ: اللہ عزوجل کی قسم میں اس اے اُس حال میں جدا ہو کر میری آنکھوں سے انسو بہہ رہے تھے۔ اور ابھی میں اپنے گھر کے دروازے تک بھی نہ پہنچا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ وہ شخص انتقال کر گیا ہے۔ ہم اللہ عزوجل سے حسن خاتمہ کی دعا کرتے ہیں کیونکہ بہت سے روزے دار اور راتوں کو قیام کرنے والوں نے برا خاتمہ پایا۔