حضرت آدمؓ کی تخلیق پارٹ ۱

حضرت آدمؓ ابو البشر ہیں یعنی وہ تمام انسانوں کےباپ ہیں۔ اللہ نے اپنے دست قدرت سے اپؓ کا جسم مبارک بنایا اور روح پھونک کر اپ کا چہرہ بنایا اور ان کو چیزوں کے نام یاد کرواے جس کے بعد فرشتوں نے انہیں سجدہ تعظیمی کیا ان کی علمی فضیلت کی وجہ سے۔ جبکہ شیطان نے اسی سجدے سے انکار کیا تھا اور وہ ملعون ہوا تھا۔

حضرت آدمؑ کو پیدا کرنے کے مراحل

جب اللہ نے حضرت آدمؑ کو پیدا فرمانا تھا تو زمین سے ایک مشت مٹی لی گئ۔ پھر اس مٹی کو الگ الگ پانیوں سے گوندھا گیا یہاں تک کہ وہ غارا بن سیاہ ہو گئ اور چپکنے لگی اور اس میں سے بو آنے لگی۔ پھر اس سیاہ اور بو والی مٹی سے انسان کی صورت بنائ گئ۔ جب ہوا اس سے گزرتی تو اس میں سے آواز پیدا ہوتی تھی۔

تخلیق کا آغاز

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ نے فرشتوں سے مشورہ فرمانے کے بعد حضرت جبرائیلؑ کو زمین کی طرف مٹی لینے کے لیے بھیجا جب وہ مٹی لینے آۓ تو زمین نے کہا :میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوںکہ میری کوئ چیز خراب کی جاۓ یا کم کی جاۓ۔ حضرت جبرائیلؑ مٹی لۓ بغیر واپس آگۓ اور عرض کی اے اللہ اس نے پناہ طلب کی میں نے اسے پناہ دے دی۔اس کے بعداللہ نے حضرت میکائیلؑ کو بھیجا تو بھی مٹی نے پناہ طلب کی اور انہوں نے پناہ دےدی۔اور لوٹ کر وہی عرض کی جو حضرت جبرائیلؑ نے عرض کی تھی۔پھر جب اللہ نے حضرت عزرائیلؑ کو بھیجا تو پھر مٹی نے پناہ طلب کی تو انہوں نے فرمایا میںاس بات سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ اللہ کا پیغام نافذ کیۓ بغیر چلا جاؤں۔ اس کے بعد انہوں نے سطح زمین سے مٹی لے لی۔

مٹی کی قسم اور اثر

ایک مٹھی کے برابر مٹی پوری زمین سے جمع فرمائی گئی جو مختلف رنگوں اور صفات کی حامل تھی اور اسی وجہ سے انسانوں کی صورت، سیرت،نفسیات،اور طبیعت بھی مختلف ہے۔ حضرت ابو موسٰی ا عشری سے روایت ہے نبی کریم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے حضرت آدم کو (مٹی) کی ایک مٹھی سے پیدا کیا جسے اس نے تمام روئے زمین سے لیا۔ 

حضرت آدم کی صورت بنانے کا مقام 

 مکہ اور طائف کے درمیان حضرت آدمؓ کی مٹی کو مقام نعمان میں رکھا گیا اور جب مٹی میں انسانی صورت حاصل کرنے کی طاقت آگئی تو اسے جنت میں لایا گیا جہاں پر حضرت آدمؓ کی صورت مبارک تخلیق دی گئی۔ 

اللہ تعالی نے حضرت آدم کی تخلیق اپنے دستِ قدرت سے فرمائی۔ اور اللہ نے اس جسم مبارک کی تخلیق کو مکمل فرما کر اس میں روح پھونک دی۔ 

آپ کی صورت اور قد مبارک کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے حضرت آدمؓ کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا اور اُن کی قد کی لمبائی 60 گذ تھی۔ (یہاں پر اپنی صورت سے مراد اپنی پسندیدہ صورت پر پیدا فرمایا مراد ہے اور یہاں گذ سے مراد شرعی گذ ہے یعنی ایک ہاتھ (ڈیڑھ فٹ) ہے یعنی حضرت آدمؓ 60 ہاتھ یعنی 90 فٹ کے ہے پیدا ہوئے)

ابلیس کا گمان 

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا: جب جنت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؓ کی صورت بنائی تو تب تک اسے چھوڑے رکھا جب تک اسی حالت میں رکھنا چاہا۔ ابلیس اُن کی آس پاس گھومنے لگا اور دیکھنے لگا کہ یہ کیا چیز ہے۔ تو جب اس نے خالی پیٹ دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو اپنے آپ نے قابو نہ رکھے گی۔

اپنے اوپر قابو نہ رکھنے سے مراد کہ تھی کہ یہ مخلوق غصے اور شہوت میں اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے گی۔

One thought on “حضرت آدمؓ کی تخلیق پارٹ ۱”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *