حضرت سیدنا عدی بن حاتمؓ سے مروی ہے کہ اللہ کا فرمان ہے کہ کچھ لوگوں کو قیامت کے دن جنت کی طرف بلایا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ اُس کے قریب پہنچ کر اُسکی خوشبو سونگھیں گے اور اُس کے محلات دیکھیں گے تو ان لوگوں کو ندا کی جائےگی کہ ان لوگوں کو جنت سے لوٹا دو ان کے لیے جنت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر وہ ایسی حسرت لے کر وہاں سے واپس جائیں گے کہ اُس جیسی حسرت سے اگلوں پچھلوں میں سے کوئی بھی نہ لوٹا ہوگا تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! اگر تو یہ دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنّم میں داخل کردیتا تو ہمارے لیے آسان تھا۔ اللہ فرمائے گا : میں نے یہ اس لیے کیا کیونکہ تم خلوت میں نافرمانی کر کے میرا مقابلہ کیا کرتے تھے اور جب تم لوگوں سے ملتے تو لوگوں کو دکھانے کے لیے تو اُن کے ساتھ بہت عاجزی سے ملتے تھے۔ لیکن تمھارے دل میں میرے لیے اس سے الٹا تھا۔ تم مجھ سے نہ ڈرتے تھے بلکہ لوگوں سے ڈرتے تھے۔ لوگوں کی عزت کرتے تھے اور میری عزت نہ کرتے تھے۔ تو آج میں تمہیں اپنا درد ناک عذاب چکھاؤں گا اور میں نے تم پر آخرت کا ثواب حرام کردیا۔

عذاب جہنّم کی کیفیت

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں: جب جہنّم میں ہمیشہ رہنے والے باقی رہ جائیں گے تو انہیں تابوتوں میں رکھ دیا جائےگا پھر ان تابوتوں کو دوسرے تابوتوں میں رکھا جائےگا۔ ہر شخص یہ گمان نہ کرے گا کہ میرے علاوہ بھی کسی کو عذاب دیا جا رہا ہے۔ اور قیامت کے دن ہر شخص اس انتظار میں ہوگا کہ کیا اُس کا ٹھکانہ جنت ہوگا یا جہنّم۔ جہنمیوں سے کہا جائےگا: اگر تم لوگ نیک عمل کرتے تو عذاب کے حقدار نہ ہوتے۔ اور جنتیوں سے کہا جائےگا اگر تم پر اللہ کا فضل نہیں ہوتا تو تم لوگ جہنّم کا ایندھن بنتے۔

حوض کوثر سے مایوس لوٹنے والے 

حضرت سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں: ایک شخص دوسرے شخص سے مل کر پوچھتا ہے کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ہم حوض کوثر سے پلٹ رہے ہیں۔ کیا تم نے حوض کوثر پی لیا؟ وہ کہتا ہے: جی ہاں پی لیا۔

دوسری طرف ایک شخص دوسرے سے مل کر یہی سوال کرتا ہے تو وہ جواب میں کہتا ہے: ہائے پیاس۔

میزان میں مقرر فرشتے کا اعلان

حضرت سیدنا انس بن ملکؓ فرماتے ہیں: میزان پر ایک فرشتے کی ذمےداری ہے، جب کسی انسان کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا تو وہ فرشتہ بلند آواز میں کہے گا کہ فلاں سعادت مند آج کے بعد کبھی بدبخت نہ ہوگا۔ وہ ایسی بلند آواز میں اعلان کرے گا جس کو تمام مخلوق سن لےگی۔ اور اگر اُس شخص کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا تو وہی فرشتہ ویسی ہی بلند آواز میں اعلان کرے گا کہ فلاں شخص بد بخت ہے۔ آج کے بعد وہ کبھی سعادت مند نہ ہوگا۔

حضرت سیدنا قتادہڑ فرماتے ہیں: کوئی ایسا شخص نہیں کہ جو جرم کرے اور اُس کا جرم روزِ قیامت کسی ایک پر بھی مخفی رہے۔

قبر والوں کو قید کر لیا گیا اور اُن میں سے بہت سے لوگوں کو اپنے کاروبار میں نقصان ہوا۔ تو جب بھی تم ان لوگوں کے پاس سے گزرو تو عبرت حاصل کرو۔ اور اُن کے حال میں غور و فکر کرو وہ سب واپس لوٹنے کی تمنّا کرتے ہیں اور ہاتھ سے گئی ہوئی چیز کو پانے کا سوال کرتے ہیں۔

لہٰذا ہر مسلمان کو اس بات کا روز غور و فکر کرنا چائیے کہ اُس نے ایک دن حساب دینا ہے۔ ایک دن ایسا ہونا ہے جب ہمارے اعمال کے علاوہ کسی بھی چیز نے کام نہیں آنا۔ تب سب نے نفسی نفسی کرنا ہے۔ اُس دِن اللہ کے سوا کوئی مدگار نہ ہوگا۔ ہر مسلمان کو چائیے کہ قیامت کے عذاب سے پناہ مانگے اور روزانہ کم سے کم 100 مرتبہ استغفار پڑھا کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *