حضرت سیدنا ابو اسحاقؒ فرماتے ہیں کہ میں اکیلا ہی مکہ کہ راستے میں چلا جا رہا تھا کہ مجھے رستہ بھول گیا اور میں 2 دن اور دو راتیں چلتا ہی رہا، اور شام ہوگئی اور میں وضو کہ لیے پریشان ہوگیا کیونکہ وہاں پانی موجود نہ تھا۔ میں نے آہستہ سی آواز سنی کوئی کہہ رہا تھاکہ اے ابو اسحاق میرے پاس ائیں۔ میں نے پاس جا کر دیکھا کہ وہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک نو جوان ہے جو بہت خوبصورت ہے۔ اُسکے سر کے پاس دو الگ الگ رنگ کے خوشبو دار پھول پڑے ہیں۔ مجھے دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ اس ویرانی میں اسکے پاس پھول کہاں سے آئے؟ حالانکہ یہ ریت پر پڑا ہے اور ہل جل بھی نہیں سکتا۔ اُسنے مجھ سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابو اسحاق! میری وفات کا وقت قریب آیا تو میں نے اللہ سے کسی ولی کی زیارت کا سوال کیا۔ کہ میری وفات کہ وقت اپنے کسی ولی کی زیارت کروا دے۔ جسکے بعد اسے آواز آئی کہ ابھی تُجھے ابو اسحاق کی زیارت ہوگی تیری وفات کے وقت۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آپ ہی ہیں اور میں آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا۔
میں نے پوچھا اے میرے بھائی!تیرا کیا معاملہ ہے؟ اس نے جواب دیا: میں اپنے گھر میں عزت اور آسودگی کی زندگی گزار رہا تھا کہ مجھے ایک سفر پر جانا پڑا۔ وطن سے دور جانے کا دل کیا تو میں حج کرنے کہ ارادے سے شہرِ شمشاط سے نکلا لیکن ایک ماہ سے یہاں پڑا ہوا ہوں اور اب وفات کا وقت قریب آگیا ہے۔ میں نے اس نو جوان سے پوچھا کہ کیا تمھارے والدین ہیں؟ تو اس نے جواب میں کہا کہ جی ہاں! ایک نیک بخت بہن بھی ہے۔ میں نے پوچھا: کیا کبھی اپنے گھر والوں کو ملنا بھی پسند کیا یا کبھی تمھارے گھر والوں نے تمھارے بارے میں جاننے کی کوشش کی؟ اس نوجوان نے کہا: نہیں،مگر میں اُن کی مہک سونگھنا چاہتا تھا تو میرے پاس بہت سے درندے یہ خوشبو دار پھول لے کر آئے اور میرے ساتھ مل کر رونے لگے۔
میں اس نوجوان کے معاملے میں حیران اور پریشان تھا کیونکہ وہ میرے دل میں اتر گیا تھا۔اور میرا دل اُسکی طرف مائل ہو چکا تھا کہ اتنی دیر میں ایک بہت بڑا سانپ نرگس کے پھولوں کا گلدستہ لے کر آیا وہ گلدستہ اتنا خوبصورت تھا کہ میں نے اس سے خوبصورت گلدستہ کبھی نہ دیکھا تھا۔
سانپ نے وہ گلدستہ نوجوان کے سر کے قریب رکھ دیا اور بولا: اے ابراہیم! اللہ کے ولی کے پاس سے واپس چلا جا کیونکہ اللہ غیور ہے۔ یہ سب دیکھ کر میری حالت خراب ہوگئی میں نے ایک زور دار چیخ ماری اور بیہوش ہوگیا۔ جب ہوش میں آیا تو دیکھا کہ وہ نوجوان وفات پا چکا تھا۔ میں نے پڑھا:إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ اور کہا یہ بہت بڑی آزمائش ہے، مجھے اس کے کفن دفن کی فکر ہونے لگی۔ اللہ نے مجھ پر نیند طاری کردی جس کی وجہ سے میں سو گیا۔
سورج نکلنے کا وقت ہوچکا تھا۔ مجھے ہوش آیا اور میں نے دیکھا کہ میں تو اسی حالت میں تھا لیکن اس نوجوان کا نام و نشاں باقی نہ تھا۔ جس کی وجہ سے میں پریشان ہوگیا۔ بہر حال جب میں حج ادا کر کے شمشاط گیا تو میں نے دیکھا کہ کچھ نقاب پوش عورتیں میرے پاس آئیںسب سے آگے ایک لمبے بالوں والی عورت تھی جس کے ہاتھ میں ایک چھاگل تھی اور وہ مسلسل اللہ کا ذکر کر رہی تھی۔ میں نے جب اس کو غور سے دیکھا تو اس عورت کو اس نوجوان کے مشابے پایا۔ اس نے مجھے پکار کر کر کہا: اے ابو اسحاق! میں کئی دونوں سے آپ کا انتظار کر رہی تھی، آپ مجھے میرے بھائی کے متعلق بتائیں۔
جب میں نے اس کو بتایا تو وہ اونچی اونچی رونے لگی جس کی وجہ سے مجھے بھی رونا آگے۔ پھر میں نے اس کو نوجوان اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا،سب کچھ بتا دیا۔ اور جب میں نے اُس کو یہ بات بتائی کہ وہ کہتا تھا کہ میں خوشبو سونگھنا چاہتا ہوں تو وہ عورت کہنے لگی: خوشبو پہنچ گئی۔ پھر وہ زمین پر گر گئی اور اُسکی روح پرواز کر گئی۔اس کے ساتھ آنے والی عورتوں نے کہا اے ابو اسحاق اللہ اپ کو جزائے خیر دے۔ جب اس کو دفن کیا گیا تو میں رات دیر تک اُس کے قریب کھڑا رہا، میں نے رات خواب میں اسے ایک سر سبز و شاداب باغ میں دیکھا اور اس کا بھائی بھی اس کے ۔قریب کھڑا تھا۔ وہ دونوں قرآن کی یہ آیت پڑھ رہے تھے:
37:61 لِمِثْلِ هَـٰذَا فَلْيَعْمَلِ ٱلْعَـٰمِلُونَ
ترجمہ: ایسی ہی بات کے لیے کامیوں کو کام کرنا چاہیے۔